اقبال سروبہ ۔۔۔ پھول کے بدلے یہاں پر خار کی امید رکھ

پھول کے بدلے یہاں پر خار کی امید رکھ
ظالموں کے شہر میں تکرار کی امید رکھ

سر جھکانے سے میاں عزت نہیں ملتی یہاں
سر رہے اونچا تو پھر دستار کی امید رکھ

خوشبوؤں کی تاک میں جو تم چلے آئے یہاں
اس جہانِ گل میں بس انگار کی امید رکھ

صرف چلنا ہی نہیں کچھ حوصلہ بھی چاہیے
راہ میں ہر دن نئی دیوار کی امید رکھ

جس پہ کر احسان اْس کے شر سے بھی ڈر ہم نشین
دوست جب دشمن بنے تو دار کی امید رکھ

کوئی تو آئے گا لشکر سے بچانے کے لیے
دشمنوں کی صف میں اک سالار کی امید رکھ

بانجھ مٹی سے گریزاں کس لئے اقبال ہے
اب کہانی میں نئے کردار کی امید رکھ

Related posts

Leave a Comment